صحافت نامہ

0 123

صحافی اگر دلیر نہ ہو حق اور سچ کی بات نہ کرسکتا ہو مسلسل پڑھنے لکھنے اور سننے سے عاری ہو تو اسے صحافت کے پیشے کو چھوڑ دینا چاہئے
کسی بھی صحافی یا رپورٹر کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کمیونٹی کی تقریب میں جانے سے پہلے انتظامیہ سے پوچھ لے کہ وہ اس تقریب کی کوریج چاہتے ہیں یا نہیں تقریب یا پریس کانفرنس میں جانے سے پہلے اپنے ادارے کے نوٹس میں لایا جائے کہ وہ اس کی کوریج کے لئے جا رہا ہے یا جا رہی ہے تقریب یا پریس کانفرنس میں اگر سوال کرنے کا موقع ملے تو سب سے پہلے اپنا اور ادارے کا نام بتائیں گرچہ وہاں سب لوگ آپ کو جانتے ہی کیوں نہ ہوں سوالات مختصر اور عام فہم ہوں اگر سوال کرنے کا تجربہ نہ ہو تو سوال لکھ لیا جائے انٹرنیشنل میڈیا کے بڑے بڑے صحافی اور رپورٹر بھی ایسے ہی کرتے ہیں کسی بھی صحافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ سوال ضرور کرے سوال کا تعلق عوام کے مسائل ملک و قوم کے مفاد میں ہونا چاہئے کراس سوالات سے گریز کرنا چاہیئے اس سے بدمزگی پیدا ہوتی ہے سوال کرنے کے بعد پورے جواب کا انتظار کرنا چاہیئے کسی بھی صحافی کو اس احساس برتری یا کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ جس ادارے کے لئے کام کررہا ہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا آپ اپنا کام پیشہ ورانہ طریقے سے کریں کام کے وقت کام اور گپ شپ کے وقت گپ شپ کریں کسی کی تقریب میں جاکر آگئے والی کرسی کا مطالبہ کرنا درست عمل نہیں جہاں جگہہ مل جائے وہاں بیٹھ جانا چاہئے اور ہلڑ بازی نہیں کرنی چاہیئے اگر آپ اپنا کام اچھے طریقے سے کریں گئے تو آپ خود ہی نمایاں ہوتے جائیں گے اور بعض لوگ خود ہی آپ کی عزت کریں گئے کام کے دوران کسی ساتھی سے نوک چونک ہوجائے تو اسے کام کا حصہ سمجھنا چاہیے رپورٹ بناتے وقت دیانت داری سے رپورٹ تیار کرنی چاہیئے بھلے وہ کسی ایسے لیڈر یا شخص کی رپورٹ ہو جس کو زاتی طور پر آپ ناپسند کرتے ہوں کمیونٹی میں تقسیم، فساد، انتشار، ملک اور قوم کے خلاف رپورٹس سے اجتناب کرنا چاہئے جھوٹ پر مبنی رپورٹ کا تعلق نہ صرف آپ کے لئے رسوائی ہے بلکہ آپ کے پیشے سے بھی بددیانتی ہے جھوٹ بولنے اور پھیلانے کا آپ کو ایک دن جواب دینا ہوگا رپورٹس حقائق پر مبنی ہوں ہاں البتہ کالم میں آپ کی اپنی رائے تجزیہ شامل ہوتا ہے اس میں آپ جو مرضی شامل کریں اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آپ جو چاہئیں لکھ سکتے ہیں کمیونٹی کے افراد اجتماعی یا انفرادی طور پر کسی ایک صحافی سے زیادتی کریے بدسلوکی سے پیش آئے تو دیگر صحافیوں کو آپس میں اختلاف بھی ہوں بول چال بھی نہ ہو تو اس کا ساتھ دینا چاہئے جب تک معاملات طے نہ پا جائیں اور ہم کمیونٹی سے ہیں ہمارا مرنا جینا اسی کمیونٹی اور اپنے لوگوں میں ہے دلوں میں نرمی پیدا کرنی چاہئے رکھ رکھاؤ اور معاملات افہام وتفہیم سے طے کرنے چاہیئے کیمونٹی کے افراد جب آپ سے کسی دوسرے صحافی دوست کی برائی پیش کررہے ہوتے ہیں تو خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا کریں دوسرے فنکشن میں وہ اپ کے خلاف بات کررہے ہونگے میں خود ہر روز ابھی تک سیکھ رہا ہوں آجکل کے جھوٹ فراڈ، بے ایمانی اور افراتفری کے دور میں صحافت لوہے کے چنے ہیں لمحہ لمحہ کی بریکنگ نیوز لوگوں کو زہنی مریض بنا رہی ہے کبھی کالے منجن کو سفید اور کبھی سفید منجن کو کالا پیش کیا جارہا ہے افسوس تو یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفادات کو بھی زاتی مفادات ترجیح دی جاتی ہے کسی مثبت خبر کی بریکنگ نیوز نہیں ہوتی مثال کے طور پر خبر یہ نہیں ہے کہ کتا انسان کو کاٹ گیا خبر یہ ہے کہ انسان نے کتے کو کاٹ لیا آپ کا تعلق ریاست کے چوتھے ستون میڈیا سے ہے ہمارا میڈیا ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے آپ بھی اس کا حصہ ہیں میڈیا ہاوسزز کے مالکان کی اکثریت تجارتی اور کاروباری ہے ان کا تعلق صحافت سے نہیں ہے صحافی کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس بات کا ضرور پتہ لگانا چاہئے کہ وہ کس کے لئے کام کررہا ہے اللہ حامی و ناصر

Leave A Reply

Your email address will not be published.