’’جس انسان کو یقین ہو کہ وہ کر سکتا ہے، وہی انسان پا بھی سکتا ہے!‘‘نپولین یل
ساری کائنات کا نظام اصول و ضوابط سے چل رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سورج وقت پر نہ نکلے اور وقت پرغروب نہ ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ مہینوں کے دن بدل جائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سال کے دن چار سو ہوجائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ چاند کے دن بدل جائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دریامخالف سمت میں بہنا شروع کردے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پودے کے بیج بن جائیں۔ یہ سارے اصول و ضوابط اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چلانے کیلئے بنائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں فرماتا ہے کہ میں اپنی سنت نہیں بدلتا۔ سنت سے مراد وہ اصول و ضوابط ہیں جو اس نے اس کائنات کو چلانے کیلئے بنادیے ہیں اور وہ تبدیل نہیں ہوسکتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لمحے کیلئے محض کشش ثقل ہی ختم ہوجائے تو تمام انسانوں کے پرخچے اڑ جائیں۔
کامیابی کے بھی بے شمار اصول وضوابط ہیں۔ سائنس کے ماہرین نے جس طرح نیچرل سائنسز یعنی فزکس ، کیمسٹری وغیرہ پر تحقیق کی، اسی طرح کامیابی کے ماہرین نے کامیابی پرتحقیق کی۔ اب تو کامیابی پر اتنی زیادہ تحقیق ہوچکی ہے کہ لاکھوں کتابیں بازار میں موجود ہیں ۔ آج بھی اس موضوع پر تحقیق جاری ہے۔ آج بھی اداروں میں بچوں کو اسائنمنٹ دی جاتی ہے کہ فلاں شخص کی کامیابی میں کون سے اصول کارفرما تھے۔ ا ب کامیابی باقاعدہ ایک سائنس بن چکی ہے۔ جوشخص ان سائنسی اصول و ضوابط کی پیروی کرتا ہے، وہ کامیاب ہوسکتا ہے ۔
امریکی تاریخ کا امیر ترین شخص
امریکا کی تاریخ میں ایک شخص گزرا ہے جس کا نام ’’اینڈریو کارنیگی‘‘ تھا۔ اس نے لیبر کے طورپر کام شروع کیا۔ کام کرتے کرتے سپروائزر بنا،لیکن کچھ ہی سال میں وہ امریکا کا امیر ترین فرد بن گیا۔ جب وہ اتنا کامیاب ہوگیا توایک دن اس کے دل میں خیال آیاکہ کامیابی پر باقاعدہ تحقیق ہونی چاہیے۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیا اور اس اشتہار میں لکھا کہ مجھے ایک ایسا تحقیق کرنے والاچاہیے جسے تنخواہ نہیں ملے گی، لیکن وہ کام میرے ساتھ کرے گا۔ اشتہار کے جواب میں بے شمار تحقیق کرنے والے آئے۔ ان میں سے اس نے ایک جوان کومنتخب کیا جس کا نام نپولین ہل تھا۔ نپولین ہل نے پچیس سال میں بیس ہزار کامیاب اور ناکام لوگوں پر تحقیق کی۔ کارنیگی کے دوستوں میں ایڈیسن،برڈ اسٹون، ہنری فورڈ جیسے لوگ شامل تھے۔ کارنیگی نے اپنے لیٹرپیڈ پر انھیں خط لکھا کہ نپولین ہل جوتحقیق کرنا چاہتا ہے، آپ اس میں اس کی مدد کریں۔
جب بیس ہزارلوگوں کے انٹرویو مکمل ہوئے تو دنیا کے سامنے کامیابی کے موضوع پر باقاعدہ ایک مقالہ سامنے آیا جس کانام تھا، Think and Grow Rich یہ دنیا میں پہلی باقاعدہ کتا ب تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کامیابی کیا ہوتی ہے، یہ کن لوگوں کو ملتی ہے، یہ کیسے ممکن ہوتی ہے، اس کوکیسے قائم رکھا جاسکتا ہے۔
نپولین ہل کے بعد دوسرا نام ڈیل کارنیگی کا ہے۔ ویسے تو اس کا زیادہ تر کام گفتگو کے حوالے سے ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کامیابی کے موضوع پربھی کئی کتابیں لکھیں۔ کامیابی کے موضوع پر موجودہ دور میں نمایاں ترین نام اسٹیفن آرکوی،انتھونی روبنس، جیک کینفیلڈ،رھونڈابائرن ،جان اساراف، باب پروکٹر وغیرہ ہیں۔ ان لوگوں نے بھی کامیابی کے موضوع پر بہت کام کیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے کتابیں تو اتنی نہیں لکھیں، لیکن تحقیق بہت زیادہ کی۔ان تمام لوگوں نے اپنی زندگیا ں لگاکر دنیا کے سامنے پہلی بار کامیا بی کی سائنس کو آشکار کیا اور دنیا کو بتایا کہ کامیابی کیسے ممکن ہے۔
جنونی خواہش
نپولین ہل نے پہلی بار دنیا کو بتایا کہ کامیاب لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے پاس جنونی خواہشیں ہوتی ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ صرف خواہش کا فی نہیں ہے۔ ہرشخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، لیکن خواہش کے ساتھ ’’جنون‘‘ کامیابی کو ممکن بناتا ہے ۔ جو لوگ جنونی، جذباتی، غصیلے ہوتے ہیں یا جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں، ایسے لوگ زیادہ کامیاب ہو تے ہیں۔ جو لوگ ٹھنڈے، جمود کا شکار، نظام کے ماتحت ہیں، ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔ نپولین ہل کہتا ہے کہ کامیاب لوگوں کے پاس خواب ہوتے ہیں۔ اگرکسی کے پاس خواب ہیں اور ساتھ میں جنون بھی ہے تو پھر خواب کی تعبیر ممکن ہوجاتی ہے۔
خواہش، جنون اور خواب کے بعد اگلی شرط استقامت ہے۔ وہ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں جن کے پاس استقامت ہوتی ہے، کیونکہ کامیابی بڑی قیمت مانگتی ہے اور وہ قیمت استقامت کی شکل میں ہوتی ہے۔
نپولین ہل کہتا ہے کہ منصوبہ بندی کرنے والے لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک دن کی، ہفتے کی، مہینے کی یا پھر سال کی اچھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں تو پھر زندگی کی بھی اچھی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کا دن، ہفتہ ، مہینہ اور سال اچھا پلان نہیں ہوسکتا تو پھر زندگی کی بھی اچھی پلاننگ نہیں کرسکتے۔ پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ دیے گئے وسائل اور دیے گئے وقت کو سا منے رکھتے ہوئے بہترین نتائج تک پہنچنا۔آپ اپنے وقت کو، اپنے وسائل کو، اپنی توانائی کو پلان کرتے ہیں، تب کہیں پہنچ پاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کامیاب ہونے والے لوگ جذباتی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات عام لوگوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جذبات کے ساتھ ان کے اندر احسا س بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔
محبت کی قوت
نپولین ہل کہتا ہے کہ دوہزارسال میں گزرے لوگوں کی سوانح حیات اس بات کی گواہ ہے کہ کامیاب ہونے والے لوگوں نے اپنی محبت کو بڑے مثبت انداز میں استعمال کیا۔ انھیں پتا تھا کہ یہ انتہائی طاقت وَر چیز ہے۔ اگر اسے بے لگا م گھوڑے کی طرح چھوڑ دیا گیا تو یہ ہمیں نیچے گرا دے گی اور ناکام کر دے گی۔ انھوں نے اسے کسی ایسے کام میں ڈالا کہ ایک دن دنیا نے دیکھا کہ وہ بہت بڑے سائنس داں، صوفی یا بزنس مین بن گئے۔
جو آدمی محبت سے عاری ہے، وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنے غصے کی وجہ سے کچھ کر کے دکھا دیا۔ کسی نے انھیں کوئی جملہ کسا یا برا بھلا کہا تو بجائے اس کے کہ وہ اس کا جواب دیتے، انھوں نے دنیا کوکچھ کرکے دکھادیا۔ پھر دنیا حیران ہوئی کہ اتنے غریب گھر کی لڑکی مادام کیوری کیسے بن گئی، آئن سٹائن کیسے بن گیا، شیکسپیئر کیسے بن گیا، وارث شاہؒ کیسے بن گئے، علی بن عثمان ہجویریؒ کیسے بن گئے۔ یہ دنیا کے وہ بڑے نام ہیں جنھوں نے شاید کالج اور یونیورسٹی کا منہ نہیں دیکھا، لیکن ان کے بغیر کالج اور یونیورسٹی ادھوری ہوتی ہیں۔ بل گیٹس نے یونیورسٹی چھوڑی تھی، لیکن پھر اسی یونیورسٹی نے اسے اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی اور اس کے لیکچر ہوئے۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے طلبہ کو دیکھتے ہوئے کہا، دیکھا میں واپس آگیا اور میں نے ثابت کر دیا کہ اگر آپ بولنے کی بجائے کرکے دکھاتے ہیں تو دنیا کو خود ہی اعتراف کرتی ہے کہ آپ کامیاب ہیں۔
تحقیق کے مطابق، مثبت کا اثر منفی سے سو گنا زیادہ ہوتا ہے، لیکن ہم عام طور پر منفی اثر لینے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہم سوچتے ہی نہیں کہ مثبت کابھی اثر لینا ہے۔ اگر ہماری کوئی تعریف کرے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اسے ہم سے کوئی کام ہے۔ ہمیں کوئی اچھا کہے تو ہمیں شک ہونے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ہمیں جب کہا جاتا ہے کہ تم بڑے کمال کے انسان ہو تو ہم سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ کیوں ایسی بات کر رہا ہے۔ لیکن جب کوئی ہمیں برا کہتا ہے تو ہم فور ی طور پر یقین کر لیتے ہیں۔ ہمیں کوئی گالی دیتا ہے تو ہم ثابت کرکے دکھاتے کہ ہم ایسے ہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم منفی برتائو کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم نے اپنے اندر ایک ایسی جگہ بنا لی ہے جس میں منفیت کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اگر ہم مثبت کا زیادہ اثر لینے لگیں تو ہماری کامیابی جلد ممکن ہوجائے گی۔
تھامس اسٹینلے، اکیسویں صدی میں دولت کے راز
نپولین ہل کے بعد کامیابی پر سب سے معروف تحقیق تھامس اسٹینلے کی ہے۔ اس نے 765 دنیا کے امیر ترین لوگوں پر تحقیق کی۔ اس کے بعد اس نے کامیابی کی تیس وجوہ بیان کیں۔ اس تحقیق میں اس نے یہ بتایا ہے کہ کامیابی میں سب سے پہلی وجہ دیانت داری ہوتی ہے۔ دنیا میں وہ لوگ کامیاب ہوتے رہے ہیں جو دیانت دار ہوتے ہیں، جن کا لین دین درست ہوتا ہے، جو اس یقین کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں کہ اگرہم نے دھوکا کیا تو ہم ناکام ہوجائیں گے۔ دیانت دار ی ایک کائنات قدر (یونیورسل ویلیو) ہے اور کائناتی قانون کی طاقت بھی۔ قدرت ان لوگوں کو بہت پسند کرتی ہے جو دیانت دار ہوتے ہیں۔
دیانت داری سب سے پہلے خود سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے کردار اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی لوگ دھوکا دینے والے ہوتے ہیں، ان کے اندر خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ ہم جب بھی کسی اچھے قانون کو ، کسی ویلیو کو، کسی قدر کو اپنے پر لاگو کرتے ہیں اور اس پرکاربند ہوجاتے ہیں تو ہماری شعاعیں مثبت ہو جاتی ہیں۔ یہ شعاعیں دوسروں تک جاتی ہیں جس سے انہیں پتا لگ جاتا ہے کہ یہ اچھا انسان ہے۔
تھامس اسٹینلے کہتا ہے کہ وہ لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو بہت زیادہ محنتی ہوتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز کا متبادل ہے، لیکن محنت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر ہم خود محنت نہیں کرتے تو دراصل ہم خود قدرت کے ساتھ سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ قدرت کو دو طرح کی سرمایہ کاری بہت پسند ہے۔ ایک محنت اور دوسرا اخلاص۔ تھامس کہتا ہے کہ کامیاب ہونے کیلئے ساتھ چاہیے۔ دنیا میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ ایک اچھی کمپنی، اچھی بیوی، اچھا پارٹنر یا ایک ایسا دوست نہ ہو جس کے ساتھ وہ اپنے دل کی ہربات کرسکے ۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کو ایک کندھے کی ضرورت ہے جہاں وہ سر رکھے اور رو لے۔ کامیابی میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کئی بار دل ٹوٹتا ہے، آدمی زخمی ہوتا ہے، زمانہ برا بھلا کہتا ہے، رکاوٹوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ بے شمار لوگ راستے میں پتھر اٹکاتے ہیں۔ اگر کوئی ساتھ نہیں ہے تو پھر کامیابی نہیں ملتی۔
آخر میں تھامس اسٹینلے کہتا ہے کہ کامیاب لوگوں کا آئی کیو بہت اچھا نہیں ہوتا، کیونکہ کامیابی میں آئی کیو اتنا کردار ادا نہیں کرتا جتنا اپنے آپ سے برتاؤ اہم ہے۔ کامیابی میں خوش قسمتی اور تعلیم کا بھی اتنا کردار نہیں ہوتا، اس لیے تھامس نے ان عوامل کو آخر پر رکھا۔ موجودہ دور میں کامیابی کے ماہرین تھامس اسٹینلے کی اس تحقیق کو بہت ہی عملی (پریکٹیکل) مانتے ہیں۔
انسان کے فقط ابتدا کرنے کی دیر ہوتی ہے، کامیابی اس کے قریب آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ابتدا کیجیے۔