کندھا

0 178

’’اگر آپ نے دوسروں کی مدد کی جو وہ چاہتے ہیں تو آپ کو بھی وہ مل جائے گا جو آپ چاہتے ہیں!‘‘(زگ زیگلر)

باباجی اشفاق احمدؒ فرماتے تھے کہ ہر انسان کو ایک کندھے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا کندھا جس پر کوئی سر رکھے اور اپنا دکھ درد بھول جائے اور دوبارہ زندگی کی جنگ کیلئے تیار ہوجائے۔ پہلے دَور میں ایک بڑی آسانی یہ تھی کہ ایسے لوگ موجود تھے جن سے زندگی کے بار ے میں سبق ملتا تھا۔ معاشرے میں ایسے استاد تھے جو پڑھانے کے ساتھ ساتھ زندگی بسر کرنا بھی سکھاتے تھے۔ آج زندگی میں وہ ذرائع نہیں ہیں جو ہمارے معاشرے کے دکھوں اور پریشانیوں کو کم کر دیں۔ ہمارے پاس وہی پروفیسر صاحبان ہیں جو صرف رٹے لگوا رہے ہیں، بچوں کے جی پی اے اور نمبرز آ رہے ہیں،ڈگریاں مل رہی ہیں۔ یوں، تعلیم تو مکمل ہوتی ہے، لیکن زندگی ادھوری رہتی ہے۔پھر ہوا یوں کہ تعلیمی ادارے کے پاس کندھا بننے کا ایجنڈا رہا اور نہ کسی استاد کے اندر یہ جذبہ کہ وہ اپنے طلبہ کی بہترین رہنمائی کرے۔ وہ اساتذہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے محفلیں آباد کیں، جنھوں نے داستان سرائے آباد کیا، جنھوں نے محافل لگائیں، جنھوں نے اپنی توانائیاں، اپنے وسائل لگا کر سکھایا اور سمجھایا، جنھوں نے سمجھایا کہ جس طر ح فزکس اور کیمسٹری ہوتی ہے، اسی طرح زندگی کی بھی ایک فزکس، کیمسٹری ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر مسئلہ ختم نہیں کرسکتے تو ہمت ہی بڑھا لو۔ زندگی میں کوئی عنوان نہیں تو فرضی عنوان رکھ کر زندگی گزار لو۔ اگر کوئی جوازِ ہستی نہیں ملتا تو جینے کا کوئی چھوٹا سا جواز ہی تلاش کر لو تاکہ دن اچھے گزر جائیں۔
یہ ایسے اساتذہ تھے جو کہتے تھے کہ بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ جو کہتے تھے کہ جس کی منزل بڑی ہے، اس کا دل چھوٹا نہیں ہونا چاہیے۔ جو کہتے تھے کہ بڑے مقام کی طرف جا رہے ہو تو راستے میں اگر کتا پڑے تو کتے کو نہ پڑنا، اپنا راستہ لے لینا۔ آج یہ باتیں سننے کو نہیں ملتیں۔

▪️مشترکہ نظام
ہمارے خاندانوں میں ایک کلچر آپس میں مل بیٹھنے کا تھا جو ایک دوسرے کو آپس میں جوڑے رکھتا تھا۔ چنانچہ اس مشترکہ کلچر میں یہ ممکن تھا کہ اگر والدین نہ سمجھا پائیں تو خاندان کے دوسرے بڑے سمجھا سکتے ہیں۔ اس کلچر میں یہ فائدہ تھا کہ اگر والد صاحب غصے والے ہیں تو کوئی بات نہیں، دادا تو نرم مزاج ہیں۔ جو یہ کہتا تھا کہ اگر ماں ڈانٹتی ہے تو نانی بچالے گی۔ یہ کلچر بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ آج نوے فیصد انسان کے سماجی مسائل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی مخلص دوست نہیں ہے جس کو وہ اپنا غم سنا سکے، جو مشکل میں اس کی مدد کرسکے۔ جب بلب کا تار اور کھمبے کا آپس میں میل ہی نہیں ہے تو پھر اس کا بجھنا لازمی ہے۔جس ذریعے سے بجلی آتی ہے اور بلب روشن ہوتا ہے، وہ ذریعہ ہی اس کے پاس نہیں ہے۔ جب کسی سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تمہار ا گھر والوں کے ساتھ کیسا تعلق ہے تو جواب ملتا ہے، بس ٹھیک ہے، روٹین کی زندگی ہے۔ ایک چھت کے نیچے رہنے کے باوجود کوئی قلبی اور جذباتی تعلق موجود نہیں رہا۔

▪️آج کے نوجوانوں کا المیہ
آج ہمارے نوجوانوں میں سب سے بڑی محرومی رہنمائی کی کمی ہے، کندھے کی کمی ہے۔ انھیں یوں تو سب کچھ مل رہا ہے، لیکن کندھا نہیں مل رہا۔ نوجوانوں کو اپنائیت کا احساس نہیں مل رہا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ استاد کا ادب ہونا چاہیے، لیکن ان کا جی نہیں چاہتا کہ استاد کا ادب کریں۔ جب اس کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم پیسے دے رہے ہیں، ان پیسوں کے عوض ہم ان کی خدمات (سروسز) لے رہے ہیں۔ ان خدمات میں کہیں بھی ادب و احترام نہیں ہے۔ دنیا میں بہترین مرہم بے لوث پیار ہے، بے لوث احترام ہے، بے لوث قدر اور بے لوث اہمیت ہے۔

کبھی مدد لینے والا مدد دینے والا بنے تو یہ کامیابی ہے۔ وہ بھی کیا زندگی کے آدمی مدد ہی لیتا رہے، اپنا ہاتھ نیچے ہی رکھے، کبھی اسے اوپر والا ہاتھ نہ بنائے۔ مدد مانگتے رہنا، دوسروں کا محتاج رہنا، آج ہمارا قومی مزاج ہے۔ اصل کمال تو یہ ہے کہ آپ کا ہاتھ نیچے تھا، کچھ عرصے میں وہ اوپر چلا گیا۔ کمال تو یہ ہے کہ آپ کبھی کندھا ڈھونڈ رہے تھے، آج آپ کندھا پیش کررہے ہیں ۔

زندگی میں خلوص بہت طاقت وَر شے ہے کہ ایک چائے کا کپ اور بسکٹ، تو جہ سے بات سننا، ذمے داری کامظاہرہ کرنا اور عزت سے رخصت کر دینا بہت بڑا تریاق ہے۔ ہمارے معاشرے میں وہ تمام قدریں ختم ہوگئیں جو ’’کندھا‘‘ بناتی تھیں۔ پروفیسر تو مل رہے ہیں، لیکن ان سے زندگی نہیں مل رہی۔ والدین تو ہیں، لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ پہلے مائیں بڑا کندھا بن جاتی تھیں، کیوں کہ وہ سمجھتی تھیں کہ اگر میری ناکامی کل اس کی کامیابی بن گئی تو یہ میری بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

▪️کندھا تلاش کرنے کی بجائے، کندھا دیجیے
آج ہر شخص اپنی لاش کو کندھے پرلیے پھر رہا ہے۔ ہر شخص اپنے غم کا مداوا ڈھونڈ رہا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے سنا جائے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے غم غلط ہوجائیں۔ ہر شخص کے ہاتھ خود اپنا گریبان چاک کر رہے ہیں اور وہ منتظر ہے کہ کوئی ان ہاتھوں کو ہٹانے والا تو ہو۔ پڑھانے والے بہت ہیں، رٹا لگوانے والے بہت ہیں۔ جی پی اے دینے والی بہت ہیں۔ چرب زبانی کرنے والے بہت ہیں۔ سبز باغ دکھانے والے بہت ہیں۔
مگر۔۔۔
میں ڈھونڈتا ہوں کہ زندگی کہاں گئی؟ میں وہ کندھا تلاش کرتا ہوں جو مجھے اب کہیں نظر نہیں آتا۔

آج نوجوانوں کی فوج در فوج موجود ہے، لیکن سمت نہیں ہے۔ سکون کے ذرائع نہیں ہیں۔ ہر طرف فرسٹریشن ہے اور وہ اسے کہیں نہ کہیں نکال رہے ہیں۔ وہ بس اپنا وقت کاٹ کر کام چلارہے ہیں۔ انھیں گالیاں سننا پڑتی ہیں، کیوں کہ وہ اگر کام بھی کرتے ہیں تو کسی کے کندھے پر سر رکھ کر، اپنا کندھا دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بیزاری اور الجھن بڑھتی جارہی ہے۔ ہر نوجوان زندگی سے عاجز ہے اور سسٹم کو کوس رہا ہے۔ اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ہم گویا کہ ایک بھنور میں ہیں اور وہ بھنور ہمیں دھنساتاجارہا ہے۔ ہم ڈوبتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ ہم کس قدر خطرات میں گھرتے جارہے ہیں۔ اس کا حل کیا ہے؟

▪️اپنے ساتھ مخلص ہوجائیے
خدارا،اپنے ساتھ مخلص ہوجائیے۔ یہ زندگی جو بیس بائیس ہزار دنوں پر مشتمل ہے، ایک بار ملی ہے، اسے پورے خلوص اور محبت کے ساتھ گزاریے۔ خلوص اپنی ذات کے ساتھ، محبت اپنے آپ سے۔ جس دن آپ نے اپنے ساتھ خلوص اور محبت اختیار کرلی، اس دن آپ کو کندھا مل جائے گا۔ ایلف شفک اپنی کتاب ’’محبت کے چالیس اصول‘‘ میں کہتی ہے کہ محبت بھری ہوئی ہو تو کائنات میں محبت نظر آتی ہے۔ اپنے اندر محبت ہو تو کسی کو محبت دے سکتے ہیں۔ جو چیز اپنے اندر نہیں ہے، وہ دینا بہت مشکل ہے۔ اگر کسی کی شفقت ملے تو پھر کبھی نہ بھولیے کہ اب آپ کو بھی شفقت دینی ہے۔ اسی طرح زندگی کا پہیا گھومتا رہے گا اور محبت و شفقت پھیلتی رہے گی۔ یہ محبت و شفقت دوسروں کیلئے کندھا بنے گی۔

اگر آج ہم کندھا نہیں بنیں گے تو نیکی مرجائے گی۔ نیکی مرنی نہیں چاہیے۔ اسے چلتے رہنا چاہیے۔ یہ معاشرے میں مدافعت کا نظام ہے۔ اسی سے معاشرہ کھڑا ہے۔ اگر یہ کندھا ختم ہوگیا تو پھر معاشرہ ختم ہوجائے گا۔ پھر اپنی بیٹی کی عزت بچانا مشکل ہوجائے گا۔ بچے کو سٹرک پار کرانا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ ہر گاڑی اسے کچلنا چاہے گی۔ ایک محتر مہ نے ٹرین پکڑنی تھی۔ وہ ناشتا کیے بغیر اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ جب اسے بھوک لگی تو اس نے وہاں سے بسکٹ کا پیک لیا اور اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔ کھانے سے پہلے اسے خیال آیا، کیوں ناں پانی پی لوں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنا بیگ اور بسکٹ وہیں رکھا اور سامنے لگے کولر سے پانی پینا شروع کر دیا۔ پانی پی کر جب واپس آئی تو دیکھتی ہے کہ ایک شخص بیٹھا بڑے مزے سے اس کا بسکٹ کھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بہت تکلیف ہوئی۔ اس شخص نے جب اس کو دیکھا تو اسے بسکٹ دے دیا۔ بھو ک کی وجہ سے اس نے لے لیا۔ لیکن اسے یہ گوارا نہ ہوا کہ اکیلے ہی بسکٹ کھالے۔ لہٰذا، اس نے آخری بسکٹ کے دو حصے کیے اور آھا خود کھایا اور آدھا اس بوڑھے کو دے دیا۔ بسکٹ کھانے کے بعد وہ بوڑھا اس کی طرف ہاتھ ہلاتا اور مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اسی دوران ٹرین آگئی وہ اس میں بیٹھ گئی۔ دورانِ سفر اسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنا بیگ کھولا۔ کیا دیکھتی ہے کہ اندر بسکٹ کا پیکٹ پڑا ہوا ہے۔ اس نے سوچا، وہ بوڑھا کتنا عظیم انسان تھا جو اپنا بسکٹ شیئر کرکے مزے سے کھلا کر مسکراتا ہوا چلاگیا۔

▪️تنقیص کی بجائے قدر کرنا سیکھئے
اگر انسان چھاؤں دینے والے درخت کی قدر نہ کرے تو دھوپ اس کا نصیب ہو جاتی ہے۔ اگر شفقت برتنے والی ماں کی قدر نہ کرے تو پھر اسے قبر پر بیٹھ کر رونا پڑتا ہے ۔
زندگی میں قدر کرنا شروع کیجیے۔ اگر آج آپ کند ھا تلاش کر رہے ہیں تو یہ نیت ضرور کیجیے کہ کل کوآپ کسی کا کندھا ضرور بنیں گے۔ ٹونی روبنس کے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔ حتیٰ کہ اس کی ننھی بہن بھوک سے روتے روتے سوگئی تھی۔ اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ دروازے پر گیا تودیکھا کہ ایک صاحب تحفے میں ایک باسکٹ لیے کھڑے ہیں۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں اور یہ باسکٹ کیوں دے رہے ہیں؟ ان صاحب نے جواب دیا، میں اَن جان دوست ہوں اور یہ باسکٹ بھی مجھے ایک اَن جان دوست نے دی ہے جو میں آپ کو دینے آیا ہوں۔

▪️اَن جان خدمت
ٹونی روبنس کہتا ہے کہ اس باسکٹ نے میری کایا پلٹ دی۔ میں نے تہیہ کیا کہ اگر آج میں یہ باسکٹ کا تحفہ لینے پر مجبور ہوا ہوں تو کل مجھے ایسی ہی باسکٹ کے تحفے دوسرے ضرورت مندوں کو دینے کے قابل بننا ہے۔ جب میں عام سے خاص بن گیا۔ میں نے سوچا کہ وہ شخص جس نے مجھ پر بے لوث نیکی کی، اس نے مجھے یہ سکھایا کہ ہمیشہ کسی گمنام، کسی اَن جان کے ساتھ اسی طرح نیکی کرنا تا کہ نہ تم جانو، نہ وہ جانے۔ صرف وہ جانتا ہو جو نیکیوں کا حساب رکھنے والا ہے۔ اگر وہ جانتا ہے تو پھر دنیا کے کسی کمپیوٹر، کسی رجسٹر پر حاضری لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے رجسٹر پر جو مارک ہو گیا، پھر وہ ہمیشہ اس کیلئے خیر سوچتا ہے۔ وہ اس کیلئے راستے آسان کرتا ہے۔ وہ شخص منزلوں کی طرف نہیں چلتا، منزلیں اس کی طرف لپک لپک کر آنے لگتی ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.