بیرسٹر سلطان محمود آذاد کشمیر کی صدارت کے نامزد امیدوار

0 131

بیرسٹر سلطان محمود آج 12 اگست کو آزاد کشمیر کی صدارت کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گئے وزیراعظم عمران خان نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو صدارت کے لئے پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کرنے کی منظوری دے دی ہے
بیرسٹر سلطان محمود اس وقت تک نامزد ہی رہیں گے جب تک
وہ منتخب نہیں ہوجاتے اپوزیشن بھی اپنا مشترکہ امیدوار نامزد کرے گی 12 اگست کو کاغذات نامزدگی جمع ہونگے 17 کو ووٹنگ ہوگی
آپ کو لفظ نامزد اس لئے شاید اچھا نہیں لگے گا کہ 1990 میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وہ نامزد صدر تھے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کی وجہ سے اس طرح بیرسٹر صدر منتخب نہیں ہوسکے تھے پیپلزپارٹی کی وفاداری کے صلے میں 1996 میں وہ وزیراعظم پہلی بار منتخب ہوئے تھے جس کا سہرا بینظیر بھٹو مرحوم کو جاتا ہے بیرسٹر سلطان محمود پر کرپشن کا اپنی حکومت میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا لیکن بیرسٹر سلطان سے ایک غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے کشمیر کونسل کے نامزد امیدوار ثالث کیانی کے مقابلے میں چوہدری حمید پوٹھی کی مدد کی تھی بیرسٹر سلطان محمود کی مدد سے حمید پوٹھی تو ممبر کشمیر کونسل منتخب ہوگئے تھے لیکن بیرسٹر سلطان محمود کو وڈیروں کی پارٹی سے اختلاف کی بڑی سزا ملی تھی وہ بعد میں پیپلزپارٹی سے سے الگ ہوگئے تھے انہوں نے اپنی جماعت پیپلزمسلم لیگ بھی بنائی تھی 2011 کے الیکشن سے پہلے وہ دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے انہوں نے پیپلزپارٹی کو 2011 کے الیکشن میں جیتنے کے لئے بہت جانفشانی سے محنت کی انہیں پارٹی کے اندر چوہدری مجید اور چوہدری یاسین کی صورت میں سخت اپوزیشن کا سامنا رہا آصف علی زرداری اور فریال تالپور نے وزرت کا تاج چوہدری مجید کے سر سجا دیا جو خود کو وزیراعظم بننے کے بعد بھی لاڑکانہ کا مجاور کہتے تھے چوہدری مجید کی وفاداری کل وقتی فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے ساتھ رہی کہا جاتا ہے بیرسٹر سلطان محمود کی وفاداری پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ راولپنڈی سے بھی گہری رہی جو آصف علی زرداری کو قطعی پسند نہیں تھی انکی 2011 کے الیکشن کے بعد انکی وزرت عظمیٰ کا چانس تھا لیکن راولپنڈی کی حمایت انکی وزرات عظمیٰ کے راستے میں رکاوٹ بنی بیرسٹر سلطان محمود کا کردار مجید حکومت میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بہت نمایاں رہا انہوں نے لندن میں ملین مارچ کا انعقاد کیا جو بہت کامیاب پروگرام ثابت ہوتا لیکن چوہدری مجید اور بلاول بھٹو کی اچانک ملین مارچ میں آمد پر جوتوں کی بارش شروع ہوگئی جس سے ملین مارچ پروگرام بہت خراب ہوگیا تھا آج بھی میرا تجزیہ یہی ہے کہ وہ ملین مارچ پروگرام جان بوجھ کر بیرسٹر کی دشمنی میں خراب کیا گیا تھا جس کا نقصان مسئلہ کشمیر کو پہنچا تھا بیرسٹر سلطان محمود پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو پھر 2016 کے الیکشن میں پارٹی بھی اور وہ خود اپنی سیٹ ہار گئے تھے 2016 کے الیکشن میں وفاق میں مسلم لیگ ن کی تھی وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر تھے وہ بھی حسب سابق الیکشن پر بھرپور اثر انداز ہوئے تھے اس طرح آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو گی پچھلے سات سالوں سے بیرسٹر سلطان نے تحریک انصاف کے ساتھ وفاداری نبھائی اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی بظاہر کوئی نہیں کی پاکستان میں تحریک انصاف ضمنی دس الیکش مسلسل ہارنے کے بعد پاکستان کی قیادت کو ایسا لگا کہ شاید وہ آزاد کشمیر میں کامیابی حاصل نہ کر سکیں اس طرح پاکستان کی قیادت نے سردار تنویر الیاس کو لاونچ کیا جس سے پارٹی پونچھ اور مظفر آباد ڈویژن میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی سردار تنویر نے خود کو ڈیفکٹو وزیراعظم کے طور پر پیش کیا جس سے عام عوام میں انہیں پیراشوٹر یا جہانگیر ترین کے بعد دوسری اے ٹی ایم مشین کے القابات سے پکارا گیا پارٹی کی قیادت بیرسٹر سلطان اور سردار تنویر کے درمیان تقسیم ہوگئی اس طرح الیکشن کے بعد وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا بیرسٹر سلطان محمود نے صیحح طور پر شاید سردار تنویر کی وزارت کو قبول نہیں کیا تو ایک بار پھر بیرسٹر سلطان محمود استحقاق کے باوجود وزرات عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا وزیراعظم نہ بننا میرپور کوٹلی بھمبر کے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوتا اگر سردار تنویر الیاس وزیراعظم بن جاتے لیکن ایک آزاد منش سردار قیوم نیازی کا نام سامنے آنے پر کچھ حالات اور جزبات ٹھنڈے پڑ گئے کہ ایک عام آدمی پسماندہ علاقے کا وزیراعظم بن گیا ہے جس کی کوئی بڑی برادری بھی نہیں ہے نہ اے ٹی ایم مشین- وزرات عظمیٰ کے بعد بیرسٹر سلطان محمود کو صدارت کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ کپتان کا دانشمندانہ ہے چونکہ انکی انٹرنیشنل سطح پر شخصیت جانی پہچانی ہے وہ عوامی آدمی ہیں ابھی فارغ ہونے والے بابو صدر سے تو لاکھ درجے بہتر ثابت ہونگے سیاست تحمل مزاجی اور صبر کا بڑا عمل دخل ہے سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے ارد گرد ہر طرح کے لوگوں کو اکاموڈیٹ کرتا ہے اپنے ساتھ ملا کر رکھتا ہے زندگی صبر و شکر کا نام ہے بیرسٹر سلطان محمود کی میرپور سے چھوڑی ہوئی سیٹ پر انکا بیٹا الیکش لڑے گا یہ مقابلہ چوہدری سعید اور یاسر سلطان کے درمیان ہوگا جو کسی معرکے سے کم نہیں ہوگا بیرسٹر سلطان محمود کے لئے اپنی لیگسی کو قائم رکھنے کے لئے اپنوں اور غیروں سے سخت جان لڑانی پڑے گئی اگر بیرسٹر سلطان محمود کا بیٹا یاسر الیکشن جیت گیا تو تحریک انصاف میں پڑنے والے کریکس گہرے ہوجائیں گے
حالات معمول کے مطابق رہے تو پاکستان میں عام انتخابات 2023 میں منعقد ہو نگے ضروری نہیں ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان میں کامیابی دوبارہ حاصل کرے ایسے میں بیرسٹر سلطان محمود پر بھاری ذمہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور ایک طرف قیوم نیازی کی وزرات عظمیٰ کو ریاست کے لوگوں کی بہتری کے لئے کامیابی سے ہمکنار کریں دوسری جانب تحریک انصاف کو متحد رکھیں
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو اپنی ذمہ داریوں اور چیلنجز کا ادارک تو ہوگا دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب بھی ہونگے یا نہیں

Leave A Reply

Your email address will not be published.