فردِ واحد ہو، گھر ہو یامعاشرہ ہو، سب سے بڑی کمائی سکونِ قلب ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں خدمت کی جارہی ہو، آسانیاں بانٹی جا رہی ہوں وہاں سکون قلب بڑھتا جاتا ہے۔جس معاشرے میں ہوس،خودپرستی اورلالچ آجائے وہاں خدمت کاجذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ خدمت ایک ہی صورت میں زندہ رہ سکتی ہے کہ جسے خدمت ملی ہو،وہ دوسروں کی خدمت کرے۔ آج کوئی سیکھنے، سکھانے اور سوچنے کو تیارنہیں ہے کہ دوسروں کی خدمت بھی کرنی ہے۔
خدمت کا محدود تصور
آج خدمت کے تصور کو پیسے کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف پیسے والا ہی خدمت کرسکتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ خالی پیٹ والااورعاجز بھی خدمت کرسکتا ہے۔ خدمت کا تعلق مال کے ساتھ نہیں ہے، خدمت کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ سخاوت مال سے نہیں ہوتی، سخاوت حوصلے سے ہوتی ہے۔ فیس بک کے بانی مارک زوکر برگ کی جب بیٹی پید ا ہوئی تو اس نے اپنی بیٹی کی خوشی میں اپنی کمائی کا بہت بڑا حصہ خیرات کر دیا اور اپنی بیٹی کی ڈائری میں لکھاکہ’’میر ی دنیا تمہاری دنیا سے بہت زیادہ خوبصورت ہے، اس لیے میں نے یہ عطیہ کیا ہے جو آنے والا وقت ہے، وہ تمہارا وقت ہے اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔‘‘ جوکوئی بھی خدمت کرتا ہے، وہ صرف اپنے لیے نہیں کرتا بلکہ اپنی نسلوں کیلئے کر تا ہے۔
خدمت کی اصل، نیت ہے
اچھی نیت خدمت ہے۔ بے لوث دعا خدمت ہے۔ بے لوث آسانی خدمت ہے۔ بسا اوقات بارگاہِ الٰہی میں مال واسباب والے کی خدمت قبول نہیں ہوتی، ایک غریب کی قبول ہوجاتی ہے۔ دراصل قبولیت مال سے نہیں ہوتی، نیت سے ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں ایک بڑھیا بھی تھی۔ وہ تھوڑے سے گندم کے دانے لے کر آئی اورکہا، میں بھی خریدارہوں۔ کسی نے کہا کہ یہ تو بہت تھوڑے ہیں۔ اس سے تمہارا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس نے جواب دیا، مجھے پتاہے میں ان دانوں سے خرید تو نہیں سکتی لیکن یہ تو ہوگا کہ خرید اروں کی فہرست میں میرا نام ہوگا۔ خدمت بہت زیادہ توانائی یا وقت دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ کوالٹی کا نام ہے۔ اگرکوالٹی کا ایک جملہ بھی کہہ دیا جائے تو وہ خدمت میں شمار ہوسکتا ہے۔
اپنے بچوں کو خدمت کا عادی بنائیے
تربیت کے حوالے سے بچوں کی بنیاد والدین ہوتے ہیں، کیونکہ وہ بچے کی زندگی میں اس کے پہلے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگروالدین میں خدمت کا جذبہ ہوگا تو وہ بچوں میں خدمت کا جذبہ پیدا کرسکیں گے۔ ہمارے پاس خدمت کے حوالے سے بہترین مثال حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ زندگی کے ہرپہلو میں آپ صلی اللہ علیہ کا خدمت کا جذبہ نظر آتا ہے۔ اگر والدین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کی پیروی کریں تو پھروہ بچوں میں صحیح خدمت کا جذبہ پیدا کرسکیں گے۔ والدین کے بعد بچوں میں خدمت کے جذبے کو پیدا کرنے میں استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک اچھا استاد معاشرے میں آکسیجن کی مانند ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارا استاد خدمت کا جذبہ نہیں پیدا کررہا، وہ صرف تنخواہ لے رہا ہے۔ اگردیکھا جائے تو اس میں سارا قصوراستاد کا بھی نہیں ہے۔ انھیں کارپوریٹ کلچرنے ایسا بنا دیا ہے۔ اس وقت ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو تعلیمی اداروں میں تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو اجاگرکرے۔خدمت کے جذبے پر مضمون لکھنے سے بچوں میں خدمت کا جذبہ پیدا نہیں کیاجاسکتا، یہ تربیت سے پیدا ہوگا۔ اس کیلئے اساتذہ کوقربانی دینی پڑے گی۔ بچوں کے اندر جذبہ خدمت کا بیج تب ہی لگے گا کہ جب وہ استاد کو قربانی دیتے ہوئے دیکھیں گے۔ آج اگرکسی بچے میں یہ بیج لگتا ہے تووہ آنے والے وقت میں تناور درخت بنے گا۔
آپ کا حق کسی شے پر نہیں، یہ محض مالک کی عطا ہے
جو بندہ کسی آسانی یا نعمت کواپنا حق سمجھتا ہے وہ بے وقوف ہے۔ دنیامیں کسی بھی چیز پرکسی کا حق نہیں ہوتا۔ یہ مالک کا کرم اورعطا ہوتی ہے۔ حق نہ ہونے کے باوجود بھی اگر نعمتیں مل رہی ہیں تو انھیں ضرور باٹنا چاہیے۔ ہم بچا کھچا سالن، فریج میں پڑی چیزیں، پھٹے پرانے کپڑے،خراب جوتے دیتے ہیں یہاں تک کہ جب بڑھاپا آتا ہے تو تب خدمت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ ہمیں خدمت کیلئے اپنی جوانی، سب سے اچھا پھل، سب سے اچھی توانائی اورسب سے اچھا ٹیلنٹ دینا چاہیے۔ اگراستاد ہیں تو کچھ بچوں کو فری پڑھانا چاہیے۔ اگر ڈاکٹر ہیں تو مستحق مریضوں کا فری علاج کرنا چاہیے۔ اگر طالب علم ہیں تو تھوڑا وقت جو نیئر طالب علموں کو دینا چاہیے۔جب تک ہم دوسروں کو اپنی پسندیدہ چیز نہیں دیں گے، اس وقت تک خدمت کے اصل ذائقے کو نہیں چکھ سکیں گے۔ خدمت وہ واحد شے ہے جس سے بندہ پاتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بانٹنے سے کم ہوتا ہے، یہ اُن کی غلط فہمی ہے۔اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ بانٹنے والوں کو زیادہ دیتا ہے۔ دنیا میں نعمت کو بچانے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی نعمتیں بانٹی جائیں۔
خدمت کیلئے بہتر وقت کا انتظار نہ کیجیے
بعض لوگو ں میں خدمت کاجذبہ فنا فی الذات کی حد تک ہوتا ہے۔ بھیک مانگنے کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن عبدا لستارایدھی وہ شخص ہیں کہ انھوں نے جب بھی مانگا ان کی عزت میں اضافہ ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے لیے نہیں مانگا بلکہ دوسروں کیلئے مانگا۔ معاشرے میں کچھ لوگ حقیقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اندر اتنا فہم پیدا کردیتا ہے کہ وہ دوسروں کیلئے اپنی ذات کو فنا کردیتے ہیں۔ ایدھیؒ صاحب کے گھرمیں ان کا نواسہ گرم پانی سے جھلسنے کی وجہ سے فوت ہوجاتا ہے۔ جب تدفین کا وقت آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ گھوٹکی میں ٹرین کاحادثہ ہوگیا ہے۔ وہ تدفین کا کام وہیں چھوڑتے ہیں اور گھوٹکی پہنچ جاتے ہیں۔ نواسے نے جانا تھا، چلا گیا لیکن اس وقت جو لوگ تکلیف میں ہیں ان تک آسانی پہنچنی چاہیے۔ یہ ظرف صرف بڑے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگ مرنے کے بعد بھی نہیں مرتے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’موت عام انسان کو مار دیتی ہے لیکن بڑے انسان کی موت اس کی عظمت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔‘‘ اس طرح کے لوگ لمبی کہانی بنتے ہیں۔ جو شخص لمبی کہانی بننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ بڑی قربانی دے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس آکر لوگ کہتے کہ جب میں کچھ بن جاؤں گا تو تب خدمت کروں گا۔ آپؒ اسے فرماتے، ’’عین ممکن ہے، اس وقت تمہارے پاس وہ ظرف ہی نہ ہو۔‘‘بہتر یہ ہے کہ ابھی سے خدمت کا مزاج بنایاجائے۔ جتنی خدمت ہو سکتی ہے اس کو تو شروع کیا جائے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو کر سکتے ہیں، وہ نہیں کررہے۔ جو لوگ خدمت کررہے ہیں، وہ استقامت پیدا کریں، کیونکہ شروع کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
خدمت وقتی عمل نہیں
خدمت پابندی والی جاب نہیں ہے۔ یہ چوبیس گھنٹوں کا عمل ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی خدمت ہوسکتی ہے۔ ہر خدمت کیلئے پیسہ کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت سی خدمتیں ایسی ہیں جو بغیر پیسے اور روپے کے کی جاسکتی ہیں۔ دوسروں کو صحیح راستہ بتائیے۔ علم میں آسانی پیدا کیجیے۔ اچھی کتابیں تقسیم کیجیے۔ کھانا کھلائیے۔ اگردھوپ ہے توچھاؤں فراہم کیجیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’کوئی ڈوب رہا ہو تو ڈوبنے والے سے اس کا عقیدہ نہیں پوچھنا چاہیے بلکہ اس کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘
دِل کی تنگی کی وجہ
ہمارے معاشرے میں دوسروں کی خدمت کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے ،تنگ دِلی لوگوں کا مزاج بنتا جا رہا ہے ۔وہ لوگ جو دل کے تنگ ہوتے ہیں ان کا ہاتھ بھی تنگ ہوتا ہے ،اُن میں دوسروں کو کچھ دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ تنگ دِل انسان کا خیال بڑا نہیں ہوتا۔ بڑا خیال بڑے دل کی تلاش میں ہوتا ہے۔تنگ دل انسان تنگ دست ہوتا ہے۔ لوگ چند روپوں کی خاطر ایک دوسرے کی جانیں لے رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔جس طرح انسان بچپن سے بڑا ہوتا ہے اور طاقتور بن جاتا ہے اس طرح ہمارے اندر کا نفس بھی پل کر جوان ہو جاتاہے اور طاقت پکڑ لیتا ہے۔ بعض دفعہ نفس ’میں‘’ میری ذات‘’ میری زندگی‘’ میرے فائدے‘‘سے ہی نہیں نکلنے دیتا اور پھر یہی نفس تنگ دلی کی طرف لے جاتا ہے۔ جب مزاج میں تنگ دلی آجائے تو بے برکتی شروع ہو جاتی ہے۔وہ لوگ جنہیں اچھی تربیت نصیب ہوتی ہے وہ مخلوق کی خیر چاہنے والے ہوتے ہیں۔اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں اور دوسروں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔وہ دل کے سخی ہوتے ہیں اور مخلوق کی خیر کے بارے میںسوچتے رہتے ہیں۔ اللہ سے تقرب کا راستہ دراصل خدمت کا راستہ ہے ۔ مزاج کی سخاوت اللہ کی بہت بڑی عطا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کرم کے بغیر سخاوت پیدا نہیں ہو سکتی۔
دِل کا سخی
دل کا سخی ، سخی ہی رہتا ہے چاہے اس کے پاس مال کم ہو یا زیادہ۔ ایک دفعہ مسجد میں لنگر تقسیم ہو رہا تھا لوگ لنگر کھا رہے تھے، ان میں ایک مسافر بھی تھا۔ کھانے کے دوران مسافر کی نگاہ مسجد کے کونے میں ایک بزرگ پر پڑی جو سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے ۔ مسافر نے لنگر بانٹنے والے سے کہا آپ اس بزرگ کو بھی لنگر دے دیں جو سوکھی روٹی کھا رہے ہیں۔لنگر تقسیم کرنے والے نے کہا وہ بزرگ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں اور میں ان کا صاحبزادہ ہوں اور یہ جو لنگر آپ کھا رہے ہیں یہ انہی کا ہے۔ بعض اوقات بانٹنے والا دل کا اتنا غنی ہو جاتا ہے کہ وہ طلب سے ہی آزاد ہوجاتا ہے۔ جو سکون بانٹنے سے ملتا ہے وہ کمانے سے نہیں ملتا ۔یہ شاید اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی بانٹنا ہے۔وہ انسان جو کہتا ہے کہ میں امیر ہو جاؤں گاتو بانٹوں گا وہ کبھی نہیں بانٹے گا۔ وہ امیر تو ہو جائے گا لیکن اس وقت اس کے پاس بانٹنے کاحوصلہ نہیں ہوگا۔جو بندہ آدھی روٹی خود کھاتا ہے اور آدھی بانٹ دیتا ہے وہ بڑا انسان ہے۔ خدمت کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف پیسے ہوں تو خدمت کی جاسکتی ہے۔مخلوق کی خدمت کرنا ایک مزاج ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتی ہے۔اِس میں دنیاوی غرض اور لالچ شامل نہیں ہوتے۔
ہنر ، مٹی کھاگئی
برصغیر میں سنیاسی بابے بہت مشہورتھے۔ ان کے پاس کئی بیماریوں کا علاج ہوتا تھا لیکن اپنے اندر حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنا ہنر دوسروں کو نہیں سکھایاجس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کا ہنر ان کے ساتھ ہی مٹی ہو گیا۔آج ہمارے ہاں لوگوں میں بھی سنیاسی بابوں والی سوچ پائی جاتی ہے۔ جو شخص ’میں ‘ سے ’ہم‘تک کا سفر طے نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا کرم نہیں کرتا۔ اللہ تعالی ٰ اپنا کرم ان لوگوں پر کرتا ہے جو بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں زندگی کی برف ہر گزرتے دن کے ساتھ پگھل رہی ہے اس سے پہلے کہ یہ پگھل کر ختم ہوجائے اس سے کسی کاپانی ٹھنڈا کر دو۔اپنی زندگی سے اپنا آپ کاٹ کر کسی کی خدمت کرنا بہت بڑی بات ہے۔ ایسے لوگ نصیب والے ہوتے ہیں۔ اِن کااللہ کے ہاں بہترین انعام اور آخرت پر یقین پختہ ہوتا ہے وہ ہاتھ کے کھلے ہوتے ہیں۔ لیکن جو شخص دوسروں پر نیکی کرنے کے بعد اسی سے صلہ بھی چاہتا ہے وہ فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ صلہ انسان نہیں اللہ تعالیٰ کی ذات دیتی ہے۔
شوق ضروری ہے
خدمت کام نہیں،یہ تو ایک شوق کا نام ہے ۔یہ چوبیس گھنٹوں کا عمل ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی خدمت ہو سکتی ہے دوسروں کو صحیح راستہ بتائیں، علم میں آسانی پیدا کریں، اچھی کتابیں تقسیم کر یں، کھانا کھلائیں، اگردھوپ ہے توچھاؤں فراہم کریں۔ نیکی کرتے وقت نیت کا درست ہونا بہت زیادہ اہم ہے۔ اگر نیت یہ ہو کہ مجھے شاباشی ملے گی تو پھر یہ اعلیٰ درجے کی نیکی نہیں ہوسکتی۔اعلیٰ درجے کی نیکی تو وہ ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہواور جس پر نیکی کی جائے اس کو اس کا شعور بھی نہ ہو۔ہر نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اس کائنات میں تمہاری نیکیوں کا مجھ سے بہتر اور کوئی قدردان نہیں ہے۔جواللہ تعالیٰ کو قدردان مانتا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نیکی کرتا ہے۔ دو چیزیںاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کبھی ردّ نہیں ہوئیں، ایک حضور اکرمﷺ کی ذاتِ مبارک پر پڑھا جانے والا درودِ پاک اور دوسرا مخلو ق کی خدمت۔ ہمیں زندگی میں یہ دونوں کام جاری رکھنے چاہئیں۔ ہمیں ہر وقت اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں، کیونکہ خبر نہیں کہ کوئی ہماری توجہ کا منتظر اور خدمت کا مستحق ہو اور یہ تھوڑی سی توجہ اور خدمت ممکن ہے اُس کی زندگی بدل دے۔