مہنگائی کا ” جِن ” بے قابو

0 154

پاکستان میں پیٹرول اور چینی کی قیمتوں میں زبردست مقابلہ جاری ، جس سے عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ چند دن قبل یہ خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ کچھ یورپی ممالک نے کم آمدنی والے شہریوں کو 100 یورو ( 20 ہزار پاکستانی روپے ) ماہانہ مہنگائی الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے۔

ان ممالک کے وزرائے ا عظم کے مطابق حکومت 2 ہزار یورو سے کم ماہانہ آمدنی والوں کو 100 یورو مہنگائی الاؤنس دے گی ۔ 3 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مہنگائی الاؤ نس کے اہل ہوں گے اور یہ رقم اہل افراد تک خود بخود پہنچ جائے گی۔

رپورٹس کے مطابق مہنگائی الاؤنس کی مد میں ان ممالک کی حکومتیں80 ارب یورو خرچ کریں گی ۔ حکومت یہ امداد ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب دے رہی ہے ۔ پاکستان کے حکمراں یہ تو کہتے ہیں کہ مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ دنیا کی اکثر حکومتیں مہنگائی کے اثرات کوزائل کرنے کےلئے لوگوں کو ریلیف فراہم کرتی ہیں ۔

ان ملکوں کی کرنسی مستحکم رہتی ہے اور یوں اس کی قدر نہیں گرتی ہے ، جس تیزی سے پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی ہے ۔ اس لئے لوگوں کو جو ریلیف یا امداد دی جاتی ہے ، اس کا انہیں فائدہ ہوتا ہے اور وہ بعض اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔

مہنگائی کے اثرات سے عام لوگوں خصوصاً کم آمدنی والے لوگوں کو بچانا ریاست اور حکومت کی اس طرح کی ذمہ داری ہے ، جس طرح جان و مال کے تحفظ ، صحت ، تعلیم ، روزگار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

ہمارے ہاں اس ذمہ داری کو ریاست اور حکومت قبول ہی نہیں کرتی ہے ۔ عوام کو براہ راست ریلیف یا امداد دینے کی بجائے سرکاری اور نجی اداروں اور کارٹیلز کو سبسڈی دے دی جاتی ہے۔ اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ کھربوں روپے کرپشن اور لوٹ مار کی نذر ہو جاتے ہیں ۔

بہت تھوڑے عرصے میں پاکستانی روپے کی قدر ہمارے اپنے خطے کے اپنے جیسے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کمزور ہو گئی ہے۔ پاکستانی 300روپے کے بدلے اس وقت بھارتی 130 روپے ملتے ہیں ۔ پاکستانی 300 روپے کے بدلے بنگلہ دیشی 150 ٹکا ملتے ہیں ۔ یہاں تک کہ افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے مضبوط ہو گئی ہے ۔

۔ ایران میں سالانہ دس لاکھ پاکستانی روپے آمدنی والے شخص کو غریب تصور کیا جاتا ہے لیکن اس غریب کے پاس بھی ایک گاڑی ہو تی ہے ۔ ایران میں مختلف اقوام آباد ہیں ۔ غریب اور امیر طبقات میں تفاوت بھی بہت زیادہ ہے لیکن ایران میں وہ افرا تفری اور تضادات نہیں ہیں ، جو پاکستان میں مختلف قوموں ، طبقات اور گروہوں کے درمیان نظر آتے ہیں ۔

غربت کی ایرانی تعریف کے باوجود وہاں غریب دو وقت کی روٹی ، تعلیم ، صحت ، پانی ، بجلی اور دیگر ضرورتوں کےلئے پریشان نہیں ہے ۔ ایران ان حالات میں بھی عالمی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہے اور وہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ، جسے اب بین الاقوامی اور خطے کی سیاست میں پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔

یہ راگ ضرور الاپا جائے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ہو رہی ہے لیکن اس بات کا بھی احساس کیا جائے کہ دنیا میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاستیں اور حکومتیں عوام کی مدد کرتی ہیں اور دنیا بھر میں بہت کم ممالک ایسے ہونگے ، جہاں کے عوام پاکستانیوں کی طرح مشکل میں ہوں ۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری معاشرے میں تضادات کی آگ کو بھڑکانے کیلئے تیل کا کام کرتی ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے سے ’’ اکنامک نیشنل ایکشن پلان ‘‘ بنانے میں دیر کی گئی تو سب کو پچھتانا پڑے گا ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.