عمران خان کے دور اقتدار سے

0 368

برطانیہ و یورپ یا امریکہ وغیرہ میں جو پاکستانی پہلے سے آباد ہیں ان کا جینا مرنا اگرچہ یہاں ہی ہے لیکن پھر بھی اپنے وطن عزیز پاکستان کی مٹی سے انکی محبت اور وفا لازوال ہے وہ جیتے جی وطن سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتے عمران خان جب 2018 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تو اہل پاکستان کی طرح بیرونی ممالک میں بھی پاکستانیوں کے دل میں ایک امید کی کرن نے انگڑائی لی تھی کہ اب پاکستان میں حالات بدلیں گئے اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جن کے نعروں اور دعوئوں سے لوگ مرعوب ہوئے اور عام لوگ بھی سیاست میں دلچسپی دکھانے لگے پھر لیکن آج جُوں جُوں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کا ماحول پیدا ہونے لگا اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کی خبریں عام ہورہی ہیں تارکینِ وطن پاکستانیوں کی نبض بھی تیزی سے دھڑکنے لگی ہے آج کے کالم میں لندن میں مقیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلاسفی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر یاسین الرحمن کا ایک مراسلہ ارسال کررہا ہوں مگر اس سے پہلے اسی حوالے سے دو چار تازہ واقعات کا زکر بے محل نہ ہوگا جمعہ 25 فروری کو لوٹن کی مرکزی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کا انتظار کررہا تھا جمعہ کا خطبہ جاری تھا مسجد کے نائب صدر ملک پنوں خان میرے پاس آئے کہنے لگے سارے عمران خان کے خلاف گینگ اپ ہوگئے ہیں لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اس گھر میں کھڑے ہوکر گواہی دیتا ہوں کہ عمران خان صیحع آدمی ہے ایماندار ہے ایسا ہی پچاس سال سے یہاں مقیم حاجی چوہدری قربان کا بھی کہنا تھا جنہوں نے پاکستان کے حالات سے بیزار ہوکر گھر والوں کو برطانیہ میں ہی دفنانے کی تلقین کررکھی ہے ایسے ہی لندن کے نواحی شہر وٹفورڈ کی جامع مسجد میں جب بھی نماز ادا کرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو ریٹائرڈ بزرگوں کی قطار لگی ہوتی ہے نجیب اللہ سمیت سارے بابے بزرگ گھیر لیتے ہیں کہتے ہیں عمران خان سچا آدمی ہے تم اس کا ٹی وی پر دفاع نہیں کرتے جم ریگولر جانا ہوتا ہے وہاں ورزش اور ریلیکس کرنے جاتا ہوں لیکن جم اور سوئمنگ میں بھی دوڑتے ہانپتے کانپتے پاکستانی عمران خان کو زیر بحث لاتے ہیں چوہدری شریف راجہ امیر اکثر اور دیگر کئی عمران خان کی اچھائیاں بیان کررہے ہوتے ہیں جبکہ خواجہ ظہور راجہ اعجاز اور دیگر نوازشریف کو اچھا کہہ رہے ہوتے ہیں کچھ لوگ میرے سمیت صحافیوں کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو بازاروں یا مختلف جگہوں پر کی کمیونٹی کے ساتھ روازانہ پیش آتی ہیں تارکین وطن دوسرے ملکوں سے اپنے ملک کے لیڈروں تعمیر و ترقی اور اداروں کا جب موازنہ کرتے ہیں تو ایک فرسٹریشن سی ان میں پائی جاتی ہے میڈیا سے بھی بیزاری کی یہ حالت ہے کہ جب صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی تو لوگ پاکستان کی طرح بیرون ملک بھی چینلز شوق سے دیکھتے تھے اب مایوسی کا عنصر غالب ہے برحال ڈاکٹر یاسین الرحمن کا مراسلہ ملاحظہ کریں اگرچہ میں ان کی بعض باتوں سے متفق نہیں ہوں لیکن خلق خدا کی آواز کو ارباب اختیار تک پہچانا بھی ضروری ہے وہ لکھتے ہیں۔

عمران خان کو اقتدار سے کیوں ہٹایا جائے ؟پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے چند سنگین چیلنجوں سے گزر رہا ہے بدقسمتی سے اپنے محل و وقوع اور جغرافیہ کی وجہ سے یہ توجہ کا مرکز رہا ہے 1983 کے بعد سے بیرونی طاقتوں نے سیاسی مداخلت کے زریعے پاکستان کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اس کی سٹریٹجک اہمیت کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کیں بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے محب وطن قیادت کا فقدان ریا ہے عمران خان جب سیاست میں آئے تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس نظام میں آگئے آسکتے ہیں ملک میں سیاسی اشرافیہ کا قبضہ تھا عمران خان کو خود کو اور اپنی پارٹی کو قائم کرنے میں تقریباً 20 سال لگے۔ 2013 میں ان کی پارٹی عروج پر تھی کہ وہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن بھارت امریکہ اور دوسروں کی مداخلت اور فنڈنگ ​​نے انہیں اقتدار سے باہر رکھا 2013 میں بھی پاکستان اسٹیبلشمنٹ ہندوستانی اور مغربی عزائم کا ادراک کرنے میں ناکام رہی تھی2013 سے لے کر اب تک پاکستانی میڈیا اور اس کے اینکرز نے عمران خان اور پاکستان کو ناکام کرنے کے لیے سب کچھ کیا شریف خاندان مغربی طاقتوں کی جانب سے پاکستان میں بار بار اقتدار میں کیوں آتا ہے؟ پاکستانی میڈیا اور سیاسی اشرافیہ ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں آخر کار منصفانہ انتخابات 2018 میں عمران خان اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اقلیتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

تین سال سے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں ان کی حکومت کے لیئے جدوجہد یا چیلنج ثابت نہ ہوا ہو۔ عمران خان پاکستان کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں کسی اور سویلین لیڈر نے نہیں کیا اور نہ ہی کسی میں کرنے کی صلاحیت ہے عمران کو ن غلط اعداد و شمار پر مبنی معیشت کے ماڈل کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو سابقہ​​حکومتوں نے اپنے سیاسی فائدے اور کرپشن کے لئے استعمال کی تھی اس نے پاکستان کی سیاست کو اچھا کرنے کی خاطر بدل دیا ہے انہوں نے اعلیٰ سطح پر حکومت کے حقیقی کردار کو متعارف کرایا ہے سرکاری محکموں میں میرٹ اور کارکردگی کے معیار مرتب کئے ہیں اگرچہ اس کا سب سے بڑا چیلنج گورننس رہا ہے چونکہ پبلک سیکٹر کے زیادہ تر ملازمین کو پچھلی حکومتوں نے سیاسی طور پر تعینات کیا ہوا ہے عمرانی حکومت کے لئے گورننس ایک چیلنج رہی ہے یہ تمام مہنگائی تاجروں اور صنعت کاروں کے لالچ سے متعارف کروائی گئی ان کی حکومت کو ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی سے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ اب تو عالمی مہنگائی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی ہیں اس کا مقصد اپنی حکومت کو بدنام کرنا اور ناکام بنانا ہے۔ گورننس بہتر بنانے کے علاوہ حکومت کے ہر شعبے میں پاکستان کی بہتری کے لئے انہوں نے ان تمام منصوبوں اور فیصلوں کو ترجیح دی ہے جس کی بدولت پاکستانی عوام میں خوشحالی کے لیے بہت زیادہ ضرورت ہے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کا موجودہ چیلنج پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے روکنے کی حکمت عملی ہے امریکی اور یورپین ممالک کی عام عوام عمران خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں ہمارے مقتدر اداروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے مغربی فنڈڈ دوست پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ان کا پاکستان کو معاشی اور اخلاقی طور پر تباہ کرنے کا سیاسی ایجنڈا ہے۔ وہ خطے میں بھارتی بالادستی چاہتے ہیں اور وہ پاکستانی فوج کو پنجاب پولیس کے برابر کرنا چاہتے ہیں۔

سابقہ ​​سیاسی اشرافیہ نے پاکستانی قوم کو اخلاقی اور سماجی طور پر کرپٹ کر دیا ہے۔مثال کے طور پر جب ppp حکومت نے plmn کی حمایت سے 18ویں ترمیم کی تو انہوں نے وفاق کے ساتھ بنیادی روابط کو ختم کرنے کو یقینی بنایا وفاق سے تعلیم لے کر صوبوں کو دے دی اس کے مقاصد کیا تھے ان کا مشن یہ تھا کہ فیڈریشن کو کمزور کیا جائے اور پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی راہ ہموار کی جائے پی ٹی آئی کے بینرز تلے پاکستان فیڈریشن مضبوط ہے اور بہت سے نوجوان پاکستان کی تخلیق اور مقصد کو سراہتے ہیں جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمیں اسلامی ورثے کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ مساوات، انصاف، اور احتساب پر مبنی طرز حکمرانی کا ماڈل متعارف کروانا چاہتے ہیں لیکن اس کے خلاف سب مل کر عمران خان کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہیں ہماری اسٹبلشمنٹ یوتھ اور محب وطن پاکستانیوں کو سٹیس کو کی سیاست کے خاتمے اور روایتی آزمودہ موروثی سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے وگرنہ اورسیزز میں آباد پاکستانیوں کے رشتے اپنے ملک سے مزید ختم ہوجائیں گے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے طور ثابت ہو رہے ہیں۔

پاک فوج اور عمران خان زندہ باد۔ ڈاکٹر محمد یاسین رحمان

Leave A Reply

Your email address will not be published.