5جنوری یوم حق خود ارادیت

0 477

دنیا بھر میں آباد کشمیری آج یوم حق خود ارادیت منا رہے ہیں، یہ دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن برائے بھارت وپاکستان کی طرف سے 13اگست 1948 اور 5جنوری1949کو منطور کی جانے والی قراردادوں پر عمل درآمد کے مطالبات کیساتھ منایا جاتا ہے۔ ان دونوں قراردادوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو حق خودارادیت کے اصول کی بنا پر طے کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پانچ جنوری کی قرارداد چونکہ بعد میں اور کچھ رد وبدل کیساتھ منظور کی گئی ہے اس لئے تنازعہ کے حل کیلئے اسی کو بنیاد مانا جاتا ہے۔ پانچ جنوری کی قرارداد کا پہلا نکتہ ہی یوں ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیرجانبدار رائے شماری کے جمہوری طریقے سے حل کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے میں کہا گیا ہے کہ استصواب اس وقت ہوگا جب کمیشن کو یہ وثوق ہو جائے گا کہ جنگ بندی اور صلح نامہ کے رائے شماری سے متعلق انتظامات کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اس کے بعد سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کمیشن سے اتفاق رائے کے بعد ایک ناظم رائے شماری نامزد کرے گا جو ایک نہایت اعلیٰ بین الاقوامی شخصیت کا مالک اور بالعموم قابل اعتماد تصور کیا جاتا ہو۔ اس کا باقاعدہ تقرر حکومت جموں وکشمیر کی طرف سے عمل میں آئے گا۔ یوں ان قراردادوں میں کشمیر کے اُلجھے ہوئے مسئلے کی ڈور سلجھانے کا انتظام بہت محنت اور طویل سوچ وبچار کے بعد تجویز کیا گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اپنے حصے کا کام کرنے کے بعد بھارت کی نیت بدل گئی اور ریاست سے فوجی انخلاء اور رائے شماری کیلئے ماحول سازگار بنانے کی بجائے بھارت نے اپنے قبضے کو دوام بخشنے کی حکمت عملی اپنالی۔ بھارت کی یہی بدلی ہوئی نیت جنوبی ایشیا کا ناسور بن کر رہ گئی۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ان قراردادوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی گوکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں دو طرح کی ہوتی ہیں جن میں ایک قرارداد کی حیثیت مشورے اور رائے کی ہوتی ہے اور دوسری قسم کی قرارداد پر طاقت کے زور سے عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مشاورتی نوعیت کی قراردادوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ نے یہ قراردادیں اس وقت منطور کی تھیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی جنگ زوروں پر تھی۔ بھارت ابھی کشمیر پر اپنے قبضہ جمانے نہیں پایا تھا۔ زمینی دوری کی وجہ سے بھارت کو کشمیر تک اسلحہ رسد اور افرادی قوت پہنچانے میں دشواری کا سامنا تھا اس کے برعکس پاکستان قربت کی وجہ سے کشمیر کی جنگ میں زیادہ برتر پوزیشن میں تھا۔ کشمیری عوام بھی رضاکارانہ طور پر اس جنگ میں شریک تھے۔ آزادکشمیر کی ریگولر آرمی بھی پاک فوج کی معاون تھی۔ اس صورتحال سے عاجز آکر بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یوں مسئلہ کشمیر دو ملکوں کی جنگ کی بجائے ایک عالمی مسئلہ بن گیا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بحث وتمحیص کے طویل المیعاد سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ انہی اجلاسوں کے دوران اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندوں نے باربار یہ اعلان کیا کہ کشمیر میں امن ہوتے ہی عوامی رائے جاننے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی بات کی گئی تھی مگر جنگ بندی کے بعد بھارت اپنے وعدوں سے مکرتا چلا گیا۔ بھارت نے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی بجائے مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس طرح اقوام متحدہ کی قراردادیں عملی طور پر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئیں۔
اقوام متحدہ نے کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ اس عرصے میں بھارت نے کشمیر کی انتظامی شکل وشباہت اور زمینی صورتحال کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس میں بھارت کو کامیابی بھی ہوئی مگر وہ سب سے بڑی حقیقت کو تبدیل نہ کرسکے جس کا تعلق کشمیریوں کے جذبات واحساسات سے تھا۔ کشمیری عوام نے ایک لمحے کیلئے بھی بھارت کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا، اب تک کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حق خودارادیت کے مطالبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ماہ وسال گزرنے کیساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ پانچ اگست2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کرکے اپنے تئیں کشمیر کے مسئلے کو ختم کر دیا اب بھارت آزادکشمیر پر حملے کی کھلی دھمکیاں دے کر حالات کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ بدترین محاصرے کے باجودکشمیریوں کے جذبات کو روندنے کی بھارتی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ امریکہ کے مفادات کے تحت دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے میں جذبات سے بھرپور کردار ادا کرنے والا اقوام متحدہ کا یہ ادارہ کشمیر میں گونگا بہرہ بنا بیٹھا ہے اس سے عالمی نظام کیلئے بھی نت نئے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ داعش جیسے سفاک گروہ انہی متضاد عالمی رویوں سے اپنے کاموں کے لئے جواز پیدا کرتے ہیں۔ اس لئے اب بقائے امن کی خاطر عالمی ادارے کو مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دینا چاہئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.