شاعری کرنا اور شعر کہنا مادی کام نہیں بلکہ جس شعر میں قدرت نظر آئے اسے ایک مکمل شعر کہا جائے گا۔ اگر اس زبان کو سمجھنے کے لئے قدرت کے نزدیک ہونا لازم ہے تو اس زبان کو بولنے میں مہارت رکھنے والوں کا مقام بھی بہت بلند ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کے لئے جسے بھی تخلیق کیا مکمل کیا اور اس کو سمجھنے کے لئے انسان کو نہ صرف عقل اور علم عطا کئے بلکہ احساس اور محبت کی لڑی میں بھی پرو دیا۔ انہی احساس اور محبت کو شاعری کی زبان دے کر دنیا تک ہمیشہ کے لئے پہچانے کا کام شعراء کرام اور ادیبوں کے سپرد کیا گیا۔ نصرت یاب خان نصرت کے مجموعہ کلام ’’ادھ کھلا گلاب‘‘ کا عنوان ہو یا پھر شاعری، دونوں میں ’’قدرت سے قربت‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ قدرت کی ان کہی بات کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔ اور قدرت کی اس ان کہی بات کو سمجھ کر دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کہنا بھی آسان بات نہیں کہ جسے ذمہ داری کے ساتھ پورا کیا گیا ہے۔
ہاتھوں میں کہہ رہا تھا جو اک ادھ کھلا گلاب
دل کی کلی بھی بات وہی بولتی رہی
رات کی تاریکیوں میں چاند تاروں کی چمک
ہے توازن بھی بھلا! دن کا اور اس تنویر کا
ادھ کھلا گلاب کا شاعر سنجیدہ اور پختہ بات کو مشکل لر کے بیان کرنے کی بجائے سہل انداز میں کہنے کا ہنر بخوبی جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی بات کسی ایک طبقہ یا مخصوص قبیلے کے لوگوں کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے کلام کہا گیا ہے جسے سمجھنا ہر پڑھنے والے کے لئے آسان ہے۔ عام طور پر شعر میں جہاں مشکل الفاظ استعمال ہوں تو عام پڑھنے یا سننے والے کے لئے اس ایک لفظ کی وجہ سے معانی سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہاں معاملہ الگ ہے۔ مشکل لفظ کو بھی شعر میں اس آسان طریقہ سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے لئے شعر کا مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شعر کہتے وقت شاعر نے نہ صرف شعری اسلوب کو سامنے رکھا بلکہ فنی اعتبار سے عام پڑھنے اور سننے والوں کی ترجیحات کو بھی مدِ نظر رکھا۔ جہاں نئے الفاظ جو عام طور پر پڑھنے یا لکھنے میں نہیں ملتے وہ استعال ہوئے ہیں تو اسی کلام کے آخر میں ان کے معانی لکھے گئے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
زباں کی نوک پہ تقریر اس نے لکھی ہے
عجیب لفظوں میں تحریر اس نے لکھی ہے
وہ کیسا شخص ہے جو خواب دیکھتا ہی نہیں
مگر یہ سچ ہے کہ تعبیر اس نے لکھی ہے
نصرت یاب خان نصرت چونکہ ایک عرصہ سے حمد و نعت بھی کہہ رہے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ جلد ہی ان کا نعتیہ مجموعہ بھی سامنے آنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادھ کھلا گلاب میں بھی حمد و نعت سے شروعات کی گئی ہیں جو کہ شاعر کے عین مزاج کے مطابق شروعات کہی جائیں تو بالکل درست ہو گا۔ اس کے علاوہ موضوعات کی کوئی قید نظر نہیں آتی۔ جو بھی لکھا صاف اور کھرے الفاظ میں لکھا۔ "ادھ کھلا گلاب” کو سامنے رکھتے ہوئے اگر تمام کتاب پڑھی جائے تو معلوم ہو گا جیسے اس نام کو خوب نبھایا گیا ہے۔ لیکن زیادہ تر بات محبت کو بڑھانے پر کی گئی ہے اور نفی میں کہی گئی بات نہ ہونے کے برابر ہے۔ انسانیت کو دئے جانے والے درس کو آگے بڑھتے رہنے پر زور دیا گیا ہے۔
بھلائی کے اگر کچھ کام ہو جائیں تو بہتر ہے
دلوں میں میل کو یوں ہی جو دھو جائیں تو بہتر ہے
رہیں پھر ہر طرف سائے گلوں کی خوشبوئیں باقی
شجر کل کے لئے ہم آج بو جائیں تو بہتر ہے
عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ تر غزلیات لمبی بحور میں کہی گئی ہیں جس سے شاعر کا استادانہ رویہ کھل کر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مجموعہ مکمل کرنے کی غرض سے غزلیں لکھ دی جاتیں ہیں مگر وہ چاشنی نہیں ملتی جب کہ یہاں ایسا کوئی معاملہ نظر نہیں آئے گا۔ نہ صرف پرانے لکھنے والوں کے لئے بلکہ غزلیات نئے لکھنے والوں کے لئے اور شعر کہنے والوں کے لئے ایک مکمل مجموعہ ہے۔
مرے ہمنوا مجھے بھول جا، مجھے آزمانے کی ضد نہ کر
مرے دل کا جو ہے معاملہ اسے لب پہ لانے کی ضد نہ کر
وہ جو دل میں تیرے چبھن سی تھی! تو یقین کر وہ چبھن نہیں
اسے پیار کہتے ہیں دل ربا! اسے یوں چھپانے کی ضد نہ کر